My Blog

My WordPress Blog

My Blog

My WordPress Blog

مآز — ایک ٹوٹا ہوا دل (درد بھری کہانی)

مآز نے ہمیشہ اپنے اندر ایک نرم جگہ چھپائی ہوئی رکھی تھی — وہ جگہ جسے وہ لوگوں کے سامنے کبھی نہیں دکھاتا تھا۔ اس کی خاموشی میں ایک سمندر کا غم تھا، مگر وہ مسکرانے کی عادت سے اس غم کو چھپا لیتا تھا۔ محبت اس کے لیے ایک روشنی تھی، اور جب اس نے اپنی زندگی کا یقین بن کر فائزہ سے محبت کی، تو وہ سمجھتا تھا کہ بالآخر وہ سکون مل جائے گا۔

فائزہ کی مسکراہٹ نے مآز کی دنیا بدل دی۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں خوش رہتی، گھر والوں کا خیال رکھتی، اور مآز کے دل کے کونے میں آرام دیتی۔ مگر محبت کا رستہ سیدھا نہ رہا — گھر کے حالات، روایات، اور فائزہ کے خاندان کے بےپناہ تحفظ نے ان کے بیچ دوریاں ڈال دیں۔ ایک دن وہ خبر آئی کہ فائزہ کا رشتہ کہیں اور طے ہو چکا ہے۔ مآز کا دل ٹوٹ گیا — وہ فون اٹھا کر پلٹ گیا، الفاظ رُک گئے، مگر امید کا آخری چراغ بجھ گیا۔

جب مآز نے فائزہ سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس کے انداز بدل چکے تھے۔ فائزہ نے نرم لہجے میں کہا کہ یہ بہتر ہے، کہ وہ الگ رہیں۔ مآز نے انتظار کیا، منہ زور دل نے کہا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا، مگر الفاظ وہی رہے — “ہمیں علیحدگی بہتر ہے”۔ مآز نے فائزہ کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی، مگر گھر کا ماحول سخت تھا۔ اسی دن فائزہ کا بھائی آیا — روایات کا محافظ، غرور سے بھرا ہوا۔ وہ ایک زور دار تکرار میں مآز کو دھمکا گیا کہ وہ فائزہ کو پریشان نہ کرے۔ بات بڑھتی گئی، اور جذبات بھڑک اٹھے۔ مآز نے تحمل سے سمجھانے کی کوشش کی، مگر بات ہاتھا پائی تک جا پہنچی — الفاظ سے مار، کچھ دھکے، اور پھر ایک لمحہ جسے مآز کبھی بھلا نہیں سکا: اس نے خود کو گھٹن محسوس کی، جیسے اس کے اندر کی ہوا چیک ہو گئی ہو۔

یہ منظر گرافک نہیں تھا، مگر اس کی تیزی مآز کے اندر ایک نئی درد بھری لکیریں چھوڑ گئی۔ وہ دن مآز کے لیے ایک کٹاؤ بن گیا — ایک ایسی کٹاؤ جو صرف جسم پر نہیں، روح میں تھی۔ اس کے بعد مآز نے سوچا کہ شاید یہی ختم ہے۔ مگر زندگی نے ایک اور امتحان دیا — اس کے اپنے گھر میں بھی قبولیت نہیں تھی۔ مآز کے والد نے ایک دن خاندان کے سامنے اسے ڈانٹنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک باوقار مگر سخت انسان تھے، جو رواج اور نام نہاد “عزت” کو دل پر رکھتے تھے۔ جب وہ سب کے سامنے مآز کے سامنے آبدیدہ الفاظ نہ کہہ سکے تو ان کی ناراضگی الفاظ سے آگے بڑھی — وہ غصے میں آ کر مآز کو گالیوں اور سخت لہجے میں ڈانٹنے لگے۔ مآز نے اپنے دل کی بات کہنے کی کوشش کی، مگر گھر کے کونے میں لوگ، رشتے دار، اور گواہ موجود تھے۔ اس دن مآز کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی خودی کو چھین لیا گیا ہو — عزت کے نام پر ذلت، محبت کے نام پر تنہائی۔

مآز نے اکثر سوچا کہ اتنے دنوں کی خاموشی نے اس کے اندر کی آواز کو ساکت کر دیا ہے۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر اپنی یادوں کو بار بار دہراتا، ہر یاد کے ساتھ ایک نیا زخم بنتا۔ دوست دور ہو گئے، وہ خود کو دنیا کے سامنے بےبس محسوس کرنے لگا۔ لوگوں کی باتوں نے اسے مزید کمزور کر دیا — “وہ ٹھیک طور پر لڑکا نہیں ہے”، “اس نے اپنی عزت گوا دی”۔ الفاظ میں نفرت، اور سوالات میں طنز۔

مگر یہ کہانی صرف زخموں کی نہیں رہی۔ مآز نے ایک رات خود سے سوال کیا: کیا وہ اسی طرح ٹوٹ کے رہ جائے؟ یا کیا وہ اپنے لیے ایک راستہ نکال سکتا ہے؟ درد نے اسے نرم نہیں بلکہ گہرا سوچنے پر مجبور کیا۔ اس نے محسوس کیا کہ جو واقعی اس کی تحقیر کر رہے تھے، وہ قابلِ رحم لوگ تھے — خوف، محدود سوچ، اور دکھ نے ان کے دلوں کو سخت کر رکھا تھا۔ مآز نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی قدر خود بنائے گا۔

اس تبدیلی کا آغاز چھوٹا تھا۔ صبح کی چھوٹی ورزش، ایک کتاب جو اس نے برسوں سے پڑھنی تھی، اور ایک چہرہ جسے وہ مسکراہٹ دے سکے — یہ سب آہستہ آہستہ ارتقائی عمل بنے۔ اس نے اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کی، ایک چھوٹا سا کورس کیا، اور پھر اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو باہر نکالنا شروع کیا۔ فائزہ کی یاد کبھی ختم نہ ہوئی، مگر وہ یاد اب نفرت یا خودکشی کی راہ نہیں دکھاتی تھی — وہ ایک سبق تھی، ایک درد جو مآز کو مضبوط بنانے آیا تھا۔

ایک دن جب وہ اپنے نئے کام کے لیے باہر نکلا، اس کے گھر والے اور گاؤں کے لوگ اب وہی تنگ نظری نہیں رکھتے تھے — تبدیلی وقت مانگتی ہے۔ مآز نے خود کو معاف کیا؛ ممکن ہے کچھ لوگوں نے اسے نقصان پہنچایا تھا، مگر وہ اب اپنے آپ کو دوبارہ جوڑ رہا تھا۔ اس نے سماج کی رَوَایات کو مانا مگر اپنے لیے نئے اصول بنائے۔ اس کی کہانی نے اُس کے آس پاس کے کچھ نوجوانوں کو بھی متاثر کیا — وہ لوگ جو کبھی خاموش رہتے تھے، اب بولنے لگے۔ مآز کا درد ایک چراغ بن گیا جس نے دوسروں کو راستہ دکھایا۔

کہانی کا اختتام ایک ایسے لمحے پر آتا ہے جب مآز دوبارہ کھڑا ہوتا ہے — اس کے ہاتھ میں وہی زخم تو ہیں، مگر آنکھوں میں وہی روشنی واپس آ چکی ہے۔ وہ جان گیا تھا کہ بعض زخم لوگ دیتے ہیں، مگر شفا کا کام وہ خود کر سکتا ہے۔ اس نے سیکھا کہ عزت صرف سامنے کا نام نہیں، بلکہ خود کی قدر ہے؛ محبت کا مطلب کنٹرول یا حراست نہیں، بلکہ احترام اور آزادگی ہے۔

یہ ایک مکمل ختم نہیں، مگر ایک شروعات ضرور ہے — مآز کا دل اب بھی یاد رکھتا ہے، مگر وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہر زخم ایک داستان ہے، مگر وہ اپنی داستان کو اب نہیں صرف دکھ کے رنگ میں لکھے گا — بلکہ امید، حوصلہ اور نئے آغاز کے رنگ میں بھی رنگے گا۔

مآز — ایک ٹوٹا ہوا دل (درد بھری کہانی)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to top